ہلاکو خان اپنے گھوڑے پہ شان سے بیٹھا ہوا تھا۔ چاروں طرف تاتاری افواج کی صفیں کھڑی تھی۔ سب سے آگے ہلاکو خان کا گھوڑا کھڑا تھا۔ ہلاکو خان کے سامنے تین صفیں کھڑی کی گئ تھی جس کو آج ہلاکو خان نے قتل کرنا تھا۔
" انکے سر قلم کردو " ہلاکو خان نے گرج کر کہا
اور جلاد لوگوں کے سر کاٹنے شروع ہوگئے۔ پہلی صف میں ایک کی گردن گئ دوسرے کی گردن گئ، تیسرے چوتھے کی۔ پہلی صف میں ایک بوڑھا غریب کھڑا تھا۔ اور موت کے ڈر کی وجہ سے دوسری صف میں چلا گیا۔ پہلی صف کا مکمل صفایا ہوگیا۔
ہلاکو خان ی نظروں نے اس بوڑھے کو دیکھ لیا تھا کہ وہ موت کے خوف سے اپنی پہلی صف چھوڑ کر دوسرے صف میں چلا گیا تھا۔ ہلاکو خان گھوڑے پہ بیٹھا ہوا ہاتھ میں لیمبو لیے اچھال کر اس سے کھیل رہا تھا اور لوگوں کے قتل کا منظر دیکھکر اس کھیل سے خود کو خوش کررہا تھا۔
جلادوں نے دوسرے صف پہ تلوار کے وار شروع کیے۔ گردن آن کی آن میں گرنے لگے۔
جلاد تلوار چلا رہے تھے اور خون کے فوارے اچھل اچھل کر زمین پہ گررہے تھے۔ اس بوڑھے بابا نے جب دیکھا کہ دوسری صف کے لوگوں کی گردنیں کٹ کر اس کی باری بھت جلد آنے والی ہے تو وہ بھاگ کر تیسرے صف میں کھڑا ہوگیا۔ ہلاکو خان کی نظریں بوڑھے پہ جمی ہوئی تھی کہ اب تو تیسری صف آخری ہے اسکے بعد یہ کہاں چھپنے کی کوشیش کرے گا۔ اس بیوقوف کو میری تلوار سے کون بچا سکتا ھے۔ 70/100 انسان مار دیئے تو یہ کب تک بچے گا؟
تیسری صف پہ جلادوں کی تلوار بجلی بن کر گر رہی تھی۔ ہلاکو خان کی نظریں مسلسل اس بوڑھے پہ تھی کہ کیسے وہ بے چین ہوکر موت کی وجہ سے بے قرار ہے۔تیسرے صف کے انسانوں کی گردنیں گررہی تھی، جلاد بجلی کی سی تیزی سے اس بوڑھے بابا کو پہنچا تو ہلاکو خان کی آواز گرجی۔
" روک جاو۔ اس کو ابھی کچھ نہ کہوـــــــــ!
بابا بتاو ــــــــ پہلی صف سے تم دوسری صف میں بھاگ آئے ـــــــــ!
جب وہ ختم ہوئی تو تم تیسری صف میں بھاگ آئے ـــــــــــ!
بابا اب بتاو ـــــــ پیچھے تو کوئی اور صف بھی نہیں اب کہاں جاو گے ــــــ؟ اب تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟
اس بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا پھر کچھ وقت بعد کہا
" میں نے پہلی صف کو اسلیئے چھوڑا کہ شاید میں دوسرے میں بچ جاو، لیکن موت وہاں بھی پہنچی ۔ پھر میں ے دوسرے صف کو چھوڑ دیا۔ کہ شاید تیسری میں بچ جاو"
ہلاکو نے نمبو کو ہاتھ میں اچھالتے ہوے کہا بابا کیسی حام خیالی ہے یہ کیسی بہکی باتیں کررہے ہو بھلا میری تلاوار سے بھی کوئی بچ سکتا ھے؟
اس بوڑھے نے کہا " وہ اوپر والی ذات اگر چاہے تو ایک لمحے میں انقلاب آسکتا ہے اور مجے بچا سکتا ھے"
" کیسے بچا سکتا ہے " ہلاکو خان نے اتنے جوش میں کہا کہ اسکے ہاتھ سے نمبو گر گیا،
ہلاکو خان چابک دست ہوشیار جنگجو اور چالاک انسان تھا۔ ہلاکو خان گھوڑے کے اوپر بیٹھتے ہوے گرے ہوے نمبو کے لیے خود کو جھکایا کہ زمین پہ گرنے سے پہلے وہ نمبو کو پکڑ لے۔ اس کوشیش میں ہلاکو خان کا پاوں رکاب سے نکل گیا اور وہ اس کوشیش میں گھوڑے سے نیچے گرگیا۔
ہلاکو خان کا گھوڑا اتنا ڈر گیا کہ وہ بدک گیا۔۔ ہلاکو ںۓ خود کو بچانے کی کوشیش کی،لشکر بھی حرکت میں آگیا لیکن گھوڑا اتنا بدک گیا تھا کہ اس نے ہلاکو کو پتھروں میں گھسیٹ کر اس کا سر پتھروں سے پٹخ پٹخ کر مار دیا۔
لشکر نے جب ہلاکو خان کا گھوڑا پکڑا تو اس وقت ہلاکو خان مر گیا تھا۔ ہلاکو کا لشکر اس بابے سے اتنا خوفزداہ ہوگیا تھا کہ لشکر نے اس بوڑھے کو نظر انداز کردیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مظلوم کی آہ سے ڈر کیونکہ جب وہ آہ کرتا ھے تو قبولیت بھت دور سے اسکا استقبال کرنے آتی ہے،