Saturday 23 February 2019

ہلاکو خان کی موت تحریر مولانا عبدالغفار فاروقی

ہلاکو خان اپنے گھوڑے پہ شان سے بیٹھا ہوا تھا۔ چاروں طرف تاتاری افواج کی صفیں کھڑی تھی۔ سب سے آگے ہلاکو خان کا گھوڑا کھڑا تھا۔ ہلاکو خان کے سامنے تین صفیں کھڑی کی گئ تھی جس کو آج ہلاکو خان نے قتل کرنا تھا۔
" انکے سر قلم کردو " ہلاکو خان نے گرج کر کہا
اور جلاد لوگوں کے سر کاٹنے شروع ہوگئے۔ پہلی صف میں ایک کی گردن گئ دوسرے کی گردن گئ، تیسرے چوتھے کی۔ پہلی صف میں ایک بوڑھا غریب کھڑا تھا۔ اور موت کے ڈر کی وجہ سے دوسری صف میں چلا گیا۔ پہلی صف کا مکمل صفایا ہوگیا۔ 
ہلاکو خان ی نظروں نے اس بوڑھے کو دیکھ لیا تھا کہ وہ موت کے خوف سے اپنی پہلی صف چھوڑ کر دوسرے صف میں چلا گیا تھا۔ ہلاکو خان گھوڑے پہ بیٹھا ہوا ہاتھ میں لیمبو لیے اچھال کر اس سے کھیل رہا تھا اور لوگوں کے قتل کا منظر دیکھکر اس کھیل سے خود کو خوش کررہا تھا۔

جلادوں نے دوسرے صف پہ تلوار کے وار شروع کیے۔ گردن آن کی آن میں گرنے لگے۔
جلاد تلوار چلا رہے تھے اور خون کے فوارے اچھل اچھل کر زمین پہ گررہے تھے۔ اس بوڑھے بابا نے جب دیکھا کہ دوسری صف کے لوگوں کی گردنیں کٹ کر اس کی باری بھت جلد آنے والی ہے تو وہ بھاگ کر تیسرے صف میں کھڑا ہوگیا۔ ہلاکو خان کی نظریں بوڑھے پہ جمی ہوئی تھی کہ اب تو تیسری صف آخری ہے اسکے بعد یہ کہاں چھپنے کی کوشیش کرے گا۔ اس بیوقوف کو میری تلوار سے کون بچا سکتا ھے۔ 70/100 انسان مار دیئے تو یہ کب تک بچے گا؟

تیسری صف پہ جلادوں کی تلوار بجلی بن کر گر رہی تھی۔ ہلاکو خان کی نظریں مسلسل اس بوڑھے پہ تھی کہ کیسے وہ بے چین ہوکر موت کی وجہ سے بے قرار ہے۔تیسرے صف کے انسانوں کی گردنیں گررہی تھی، جلاد بجلی کی سی تیزی سے اس بوڑھے بابا کو پہنچا تو ہلاکو خان کی آواز گرجی۔
" روک جاو۔ اس کو ابھی کچھ نہ کہوـــــــــ!
بابا بتاو ــــــــ پہلی صف سے تم دوسری صف میں بھاگ آئے ـــــــــ!
جب وہ ختم ہوئی تو تم تیسری صف میں بھاگ آئے ـــــــــــ!
بابا اب بتاو ـــــــ پیچھے تو کوئی اور صف بھی نہیں اب کہاں جاو گے ــــــ؟  اب تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟
اس بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا پھر کچھ وقت بعد کہا
" میں نے پہلی صف کو اسلیئے چھوڑا کہ شاید میں دوسرے میں بچ جاو، لیکن موت وہاں بھی پہنچی ۔ پھر میں ے دوسرے صف کو چھوڑ دیا۔ کہ شاید تیسری میں بچ جاو"
ہلاکو نے نمبو کو ہاتھ میں اچھالتے ہوے کہا بابا کیسی حام خیالی ہے یہ کیسی بہکی باتیں کررہے ہو بھلا میری تلاوار سے بھی کوئی بچ سکتا ھے؟
اس بوڑھے نے کہا " وہ اوپر والی ذات اگر چاہے تو ایک لمحے میں انقلاب آسکتا ہے اور مجے بچا سکتا ھے"
" کیسے بچا سکتا ہے " ہلاکو خان نے اتنے جوش میں کہا کہ اسکے ہاتھ سے نمبو گر گیا،
ہلاکو خان چابک دست ہوشیار جنگجو اور چالاک انسان تھا۔ ہلاکو خان گھوڑے کے اوپر بیٹھتے ہوے گرے ہوے نمبو کے لیے خود کو جھکایا کہ زمین پہ گرنے سے پہلے وہ نمبو کو پکڑ لے۔ اس کوشیش میں ہلاکو خان کا پاوں رکاب سے نکل گیا اور وہ اس کوشیش میں گھوڑے سے نیچے گرگیا۔
ہلاکو خان کا گھوڑا اتنا ڈر گیا کہ وہ بدک گیا۔۔ ہلاکو ںۓ خود کو بچانے کی کوشیش کی،لشکر بھی حرکت میں آگیا لیکن گھوڑا اتنا بدک گیا تھا کہ اس نے ہلاکو کو پتھروں میں گھسیٹ کر اس کا سر پتھروں سے پٹخ پٹخ کر مار دیا۔

لشکر نے جب ہلاکو خان کا گھوڑا پکڑا تو اس وقت ہلاکو خان مر گیا تھا۔ ہلاکو کا لشکر اس بابے سے اتنا خوفزداہ ہوگیا تھا کہ لشکر نے اس بوڑھے کو نظر انداز کردیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مظلوم کی آہ سے ڈر کیونکہ جب وہ آہ کرتا ھے تو قبولیت بھت دور سے اسکا استقبال کرنے آتی ہے،

آخر وجہ کیا ہے ۔ تحریر مولانا عبدالغفار فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ ایک مرتبہ تھانہ بھون تشریف لے گئے ساتھ ایک شیعہ بھی تھا امیر شریعت ؒ نے بطور تعارف فرمایا حضرت یہ شیعہ تو ہے پر صحابہ کرام  پے تبراء نہیں کرتا حضرت نے  برجستہ ارشاد فرمایا اپ کے فرمانے کا مطلب ہے کتا تو ہے پر بھونکتا نہیں ہے ۔ حضرت قاضی مظہر حسین صاحب ؒ اپنی مایہ ناز تصنیف کشف خارجیت میں اپنے والدماجد قاضی کرم الدین دبیر ؒ کا ایک واقعہ لکھتے ہیں  کہ ایک پروگرام میں حضرت امیرشریعت ؒ بھی مدعو تھے جب قاضی صاحب کا بیان شروع ہوا امیر شریعت تشریف لے آئے قاضی صاحب نے رافضیت کے باطل  عقائد پے گفتگوکی ۔ گفتگو کے بعد امیر شریعت نے فرمای جب کرم الدین بیان فرما رہے تھے مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی میرے دماغ پے ہتھوڑے برسا رہاہے کہ جن لوگوں کو اپ نے ساتھ ملایا ہے ان کے یہ یہ عقائد ہیں۔1953 کی تحریک ختم نبوت کی ناکامی کے بعد شیخ العرب والعجم سید حسین احمد مدنی ؒ نے امیر شریعت کو پیغام کو بھیجا کہ میں نے استخارہ کیا ہے کہ تحریک کی ناکامی کی وجہ کیا بنی تو میرے استخارے میں شیعہ سے اتحاد نکلا  ۔ حضرت امیر شریعت نے ارشاد فرمایا حضرت میں خنزیر کے شکار کے لیے نکلا تو کتوں کو ساتھ ملا لیا مولانا حکیم ارشاد دیوبندی ظاہر پیر رحیم یار خان والے موجود تھے تو انھوں نے عرض کی حضرت جس نے ایک نبی مانا تو خنزیر اور جس نے بارہ مانے وہ کتا ؟ حضرت  امیر شریعت نے مولانا ارشاد کی یہ بات سن کر فرمایا اپ سرگودھا جائیں مجلس احرار کے خرچہ پے اور امام پاکستان مولانا احمد شاہ بخاری ؒ سے شیعت پڑھ کر آئیں ۔ یہ رافضیت کے عقائد ونظریات سے عدم واقفیت کی وجہ کیوں تھی اس کا جواب بھی امام اہلسنت حضرت شیخ سرفراز خانصاحب صفدر کی زبانی پڑھ لیں ۔ ارشاد الشیعہ میں حضرت لکھتے ہیں  ۔ شیعہ کے عقائد سے عدم واقفیت کی ایک وجہ تو تقیہ تھا دوسری یہ کہ انکا سارا ڈھانچہ مذہبی طور پے ہم سےالگ تھا کبھی کسی مسئلہ میں نہ تو ان کی کتب کی طرف رجوع کی نوبت آتی نہ ہی ان کی کتب امہات کی دستیاب آسان تھی اور یہی بات مختلف پیرایہ میں امام اہلسنت حضرت علامہ عبدالشکور لکھنوی ؒ نے لکھی ہے۔  خمینی انقلاب کے بعد کے بعد جب خمینی نے بڑے پیمانےپے کتب تشیع کی اشاعت کی اور پھر انقلاب کو دیگر ممالک میں پھیلانے کے لیے  مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے  اور نتائج سے بے پرواء ہوکر اپنے نظریات ببانگ دھل پھیلائے تو پھر علماء اہلسنت نے اس فتنہ کا تعاقب شروع کیا ۔ حضرت ابوالحسن علی ندوی کی دو متضاد تصویریں   ۔ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی کی ایرانی انقلاب ۔ اور خمینی اثناء عشریہ کے بارے علماء کرام کا متفقہ فیصلہ ۔  مولانا نعمانی ؒ کی کاوش پے دارالعلوم دیوبند کا اثناء عشریہ کو ختم   نبوت کا منکر قرار دینا۔ مہتمم دالعلوم دیوبند حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا خمینت عصر حاضر کا عظیم فتنہ نامی کتاب لکھنا۔   اور پھر پاکستان کے علماء بشمول خواجہ خواجگان حضرت خواجہ خان محمد ؒ ۔ مولانا ولی حسن ٹونکی۔  قاضی مظہر حسین ۔خلیفہ مجاز شیخ العرب والعجم کی متفقہ فیصلہ کی تائید ۔ اور شہید اسلام  مولانا یوسف لدھیانوی شہید ؒ کی اس فتوی کی بھرپور تائید اور اپنے ادارے سے اشاعت ۔ اور مورخ اسلام علامہ ضیاء الرحمن فاروقی کی تاریخی دستاویز ۔اسلام میں صحابہ ؓ کرام  کی آئینی حثیت ۔ تعلیمات آلؓ  رسول ؐ   ۔ اس کے ساتھ ساتھ امیر عزیمت  اور اپ کے جملہ رفقاء کی تاریخی علمی سیاسی آئینی وقانونی  جدوجہد ۔ یہ سب کچھ بتاتا ہے امت محمدیہ کے بیدار مغز راہنماٶں نے کس طرح اور کس انداز سے اس فتنہ باطلہ کا تعاقب کیا اور اپنی جان پے کھیل کر امت کے ایمان کی حفاظت کی ۔ اور دور تقیہ ونفاق میں اور کتب کی عدم دستیابی اور اپنے عقائد ونظریات میں کتمان کے باوجود جب بھی انہی ان کے عقائد بارے کچھ کہیں سے معلوم ہوا تو سب چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر کیسے اظہار برات فرمایا ۔ المیہ یہ ہے کہ اب جب اس طبقہ کی اسلام ملک دشمنی واضح ہوچکی ہے اور حقیقت عیاں ۔ کچھ افراد سیاست کے نام پے اس طبقہ کی حثیت جو مسلمہ طور پے کفریہ رہی ہے اہلسنت کے تمام طبقات کے ہاں ان کی حثیت ومقام کو نہ صرف مشکوک بنا رہے ہیں کہ انہیں اسلامی دینی مذہبی چھتری عطاء کر رہے ہیں ۔  ہمیں شیعت سے اتحاد پے اعتراض نہیں بلکہ ان کو دی جانے والی حثیت پے اعتراض ہے ۔ اگر جمعیت  کے ذمہ داران اج یہ کہ دیں کہ ہمارے نزدیک شیعہ کافر ہے اورہم اسے کافر ہی تسلیم کرتے ہیں اور ان کی اسی حثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اتحاد کررہے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب اسمبلی کے فلور پے مسلم کمیونٹی کہا جاتاہے ۔ خالد سومرو شہید ایک بیان میں اپنی جماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے اس طبقہ کو مسلمانوں کا گمراہ طبقہ کہتے ہیں ایک سابق سینٹر حمداللہ صاحب ایمان قرآن کلمہ تک ایک کہتے ہیں۔ شیرانی صاحب انکی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں اور خمینی جیسے بدبخت کی قبر پے فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ راشد سومرو جیسا راہنماء اس کے مقتولین کی دعائے مغفرت کرتاہے اور تعزیتیں کرتا ہے۔ اور اس طرح مولوی زکریا فیصل  آبادی امیر جمعیت علماء فرزند مولانا جاوید حسین شاہ  مقامی علماء تاجران کے فیصلے کے برخلاف ایک غیر قانونی ایمان بگاڑے کی تعمیر کی ذمہ داری لیتا ہے ۔تو پھر سوالات تو اٹھتے ہیں   اگر امیر شریعت ؒ عقائد سے کماحقہ عدم واقفیت کے باوجود کتا کہ سکتے ہیں ۔تو یہ کیوں نہیں ؟  کیا مفادات ایمان پے  اس درجے غالب آچکےہیں کہ احقاق حق جیسا فریضہ ادا کرتے ہوئے زبان پے  تالے  لگ جاتے ہیں کیا ہوس اقتدار الفت اقدار پے اس قدر حاوی ہوچکی ہے  آخر  اس درجہ شیعیت نوازی کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟؟؟  ۔

Monday 12 June 2017

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حالات فضائل اور کارنامے

ام،والدکانام ۔عبدمناف۔ والدہ کانام فاطمہ بنت اسد۔کنیت ابوالحسن اور ابوتراب۔لقب ۔حیدر۔اسداللہ۔المرتضی۔پیدائش آپ ﷺ کی ولادت سے 30سال بعد اس کے علاؤہ بھی دوقول ہیں۔حلیہ۔قد درمیانہ۔رنگ گندم گون۔آنکھیں بڑی۔چہرہ پر گوشت۔سینہ کشادہ۔۔۔عادات۔۔۔غذا اور لباس میں سادگی۔دشمنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔علم نحوکے بانی۔اچھے اشعار کہ لیتے تھے۔خطابت میں مہارت حاصل تھی۔مقدمات کے فیصلے کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔بیویاں۔فاطمۃ الزہراء۔،اسماء بنت عمیس۔امامہ بنت ابی العاص۔لیلی بنت مسعود۔اولاد۔مؤرخین چودہ صاحبزادوں اورسولہ صاحبزادیوں کاتذکرہ کیا ہے انمیں چندایک کے نام یہ ہیں۔حضرت حسن ۔حسین۔محسن۔یحیی ۔مھمدالاوسط۔عبیداللہ ابوبکر۔عثمان۔ عمر۔۔۔بھائی ۔طالب۔ عقیل۔ جعفر۔ بہنیں۔ام ہانی۔ جمانتہ۔ قبول اسلام۔آپ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔آپ ﷺ کی ہجرت کے وقت آپ کو آنحضرت صلعم کے بستر پر سونے کا اعزاز میسر آیا۔آپ نے آپ صلعم کی ہجرت کے تسرے دن ہجرت فرمائی اور قباءمیں آپ صلعم سے جاملے۔ قبا میں اپ کاقیام کلثوم بن الہدم کے مکان میں قیام پذیر ہوے۔ آپ کا بھائی مدینہ میں سہیل بن حنیف کو بنایا گیا۔اکثر غزوات میں آپ نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی۔فتح مکہ کے موقع پر اپ نے حضور صلعم کے حکم سے الحویرث بن النقید کوقتل کیا،،حضور صلعم کے مرض وفات میں آپ نے تیماداری میں بھرپور حصہ لیا،،ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں فتنہ ارتدادکو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خمس کے اموال کی تقسیم کے متولی بھی تھے،،اور مشاورتی مجلس کے اہم رکن بھی۔دور عثمانی میں حدود جاری کرنے کے معاملات آپ کے سپرد تھے،اور شوری کے رکن بھی تھے۔حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کے بعد آپ خلیفہ منتخب کرلیاگیا،،،مفسدوں اور باغیوں کی شرانگیز کی وجہ جمل وصفین جیسے روح فرسا حادثات پیش آئے،،،تحکیم کے بعد یہ باغی شعبان38 ہجری کونہروان کے مقام پر جمع ہوئے۔حضرت علی کے لشکر کے ساتھ انکی شدید لڑائی ہوئی،جس مین ان خارجیوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا،،اس کے بعد حرم شریف میں تین باغی اکھٹے ہوئے،،برک بن عبداللہ نے امیر معاویہ ،،عمروبن بکر نے عمر بن عاص،،عبدالرھمن بن ملجم نے علی المرتضی کوشہید کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور 17 رمضان کا وقت متعین ہوا،،اس کے بعد ابن ملجم کوفہ پہنچا حضرت علی صبح کی نماز کے لئے مسجد جارہے تھے،اس نے تلور سر پر زور سے دے ماری جو سر میں گہری چلی گئی،،آپ خون سے تر بتر ہو گئے آپ کے حکم سے جعدہ بن ہیرہ نے نماز پرھائی ،،،تین دن بعد آپ نے 63سال کی عمر میں شہادت پائی،،حضرات حسنین اورعبداللہ بن جعفر طیار نے ضسل اور کفن پہنایا،حضرت حسن نے جنازہ پڑھایا،،کوفہ کی مسجد الجماعۃ کے قریب الرحبہ کے مقام پر نماز فجر سے پہلے دفن کردیا گیارضی اللہ عنہ ورضوعنہ،،،،،(تدفین کی جگہ کے بارئے میں اور بھی اقوال ہیں واللہ اعلم )